۱۵ آبان ۱۴۰۳ |۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 5, 2024
مدرسہ

حوزہ/ سپریم کورٹ آف انڈیا نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ سے متعلق فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کے تعلیمی نصاب میں مذہبی تربیت شامل ہونے کے باوجود یہ قانون غیر آئینی نہیں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ آف انڈیا نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ سے متعلق فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کے تعلیمی نصاب میں مذہبی تربیت شامل ہونے کے باوجود یہ قانون غیر آئینی نہیں ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کہا کہ صرف سیکولرازم کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر قانون کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اتر پردیش میں قائم 16 ہزار مدارس کو بڑی راحت ملی ہے۔ بنچ، جس میں جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی شامل تھے، نے کہا کہ الہٰ آباد ہائی کورٹ نے سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی کے حوالے سے غلط فیصلہ دیا تھا۔ بنچ نے یہ واضح کیا کہ حکومت مدارس میں تعلیم کے معیار کو ریگولیٹ کرنے کا حق رکھتی ہے، لیکن اس سے مدارس کے انتظامی امور میں کوئی مداخلت نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ مدارس کے روزمرہ کے انتظام میں مداخلت نہیں کرتا، بلکہ یہ قانون اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے کہ ریاست کی ذمہ داریوں کے تحت بچوں کو مناسب تعلیم دی جائے۔ عدالت نے مزید کہا کہ تعلیم کے معیار سے متعلق ضوابط مدارس کی خود مختاری پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔

واضح رہے کہ الہٰ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مدارس کو سیکولر تعلیمی نظام میں ضم کیا جانا چاہیے، اور اس قانون کو آئین کے سیکولر اصولوں کے منافی قرار دیا تھا۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کی مذہبی تعلیم ہندوستانی آئین کے تحت دی گئی آزادی کے دائرے میں آتی ہے، اور حکومت صرف تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ضوابط لاگو کر سکتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .